درد کا دل سے دوستانہ ہے
ہاں یہ رشتہ بہت پرانا ہے
دل میں برسات ہے ترے غم کی
آنسوؤں کو مگر چھپانا ہے
ساحلو ! مجھ کو دو نہ آوازیں
میں نے طوفاں کو آزمانا ہے
یاد آتا ہے وہ ہی شام و سحر
دور جس کا کہیں ٹھکانا ہے
مسکرائے تھے میری حا لت پر
اب مجھے تم پہ مسکرانا ہے
ان کو طوفان سے گلہ کیسا
جن کو ساحل پہ ڈوب جانا ہے
گھر میں رہتے ہوئے ہے تنہائ
اس سے بہتر کوئ ویرانہ ہے ؟
اے ہواؤ ! زرا تو تھم کے چلو
اس کی رہ میں دیا جلا نا ہے
شب کی خاموشیوں میں بستر پر
کتنا مشکل اسے بھلا نا ہے