درد کی سولی سے اُتارے مجھ کو
یہی حسرت ہے وہ پُکارے مجھ کو
میں تو ڈوبنے کے لیے اُترا تھا
لے آئی لہر پھر کنارے مجھ کو
پھربھلے نذر ِلحد کردے لیکن
اپنے ہاتھوں سے سنوارے مجھ کو
تجھے کیا شوق ہے بربادی کا
دلِ ناداں اتنا تو بتا رے مجھ کو
رات بھر جن کو شمار کرتا ہوں
گنتےہیں اب وہ ستارے مجھ کو
بے چین کیے رکھتے ہیں ہر لمحہ
تیری دید کے نظارے مجھ کو
ارماں ہی رہا کہ میری کوئی
تطہیر کرے،نکھارے مجھ کو
دیتے ہیں بدلے ہوئے تیور تیرے
ترکِ تعلق کےاِشارے مجھ کو
دلِ خستہ کی طرح تم بھی رضا
لگتے ہو تقدیر کے مارے مجھ کو