درد کی گہرائی کوئی کیا جانے
یہ عالم تنہائی کوئی کیا جانے
روح جسم کے سانچے میں بند ہے
حبس بے جا کی گھٹن کوئی کیا جانے
دیکھتا ہوں دنیا کو حیرانی سے
اس کھیل کا انجام کوئی کیا جانے
اڑتے بادلوں میں چھپی بارشیں
کب کہاں جا برسیں کوئی کیا جانے
بیماری دل سمجھ آئے گی کس کو
بات بات پہ دھڑکنا کوئی کیا جانے
آتش گل سے جل گیا چمن تمام
حسن کا فریب کوئی کیا جانے
زندگی کس مشکل سے ہے گزر رہی
میرا خدا جانے کوئی کیا جانے