مسکن میرا ہر راہ پہ ہواؤں نے پامال کیا
ترک تعلق کا کر کے بہانہ ارباب نے یہ حال کیا
اک سسکتی شام میں بے رخی کا ہے ادھار
بیگانگی کے زعم میں اس نے پھر کیوں ملال کیا
کیسے سونپ دوں اس کو میں درد زندگی کے ورق
احساس محرومی کے سفر بے ساختہ سوال کیا
ٹوٹ کر بکھرا ہوا ریزہ ریزہ ہے میرا بدن
یوں دھوپ میں جلتی حیات نے اسطرح نڈھال کیا
فلک پہ چاند کے ہالے میں خمار ہے عشق کا رچا
پر درد کے افسردہ قفس نے میری جاں کو بے حال کیا