فہم و خرد سے عاری جواری بنا دیا
در در کی ٹھوکروں نے بھکاری بنا دیا
نڈھال بھوک سے جو گرا لڑکھڑا کے وہ
سب نے بڑے یقیں سے شرابی بنا دیا
پانی کا ایک گھونٹ پلایا نہیں مگر
پھر بھی حقارتوں سے موالی بنا دیا
اجرت طلب کرئی تو اس آجر نے چیخ کر
بیکار و بے شعور سوالی بنا دیا
نکلا جو منہ چھپا کے قرض دار سے وہ کل
لوگوں نے ماہ نور نقابی بنا دیا
شائد کسی کتاب میں رکھا ہو تلف نوٹ
متلاشی رقم کو کتابی بنا دیا
کرتا رہا رقم جو زمانے کی سختیاں
لکھنے کے اس عمل نے لکھاری بنا دیا
جو ناظرہ بھی ٹھیک پڑھاتا نہیں اشہر
لوگوں نے اس امام کو قاری بنا دیا