بازارِ جہاں رُسوا کیا گیا ہوں
خودی میں خودی کو سراہا گیا ہوں
یہ بھی کچھ کم غم نہیں ہمارے لیئے
کے تیری محفل سے نکالا گیا ہوں
میں وہ دیا ہوں جسے رات بھر
روشنیوں کے شہر جلایا گیا ہوں
راہِ عشق ہی ایسی ہے جہاں پر
خود نہیں آیا، بلایا گیا ہوں
ہم بھی کبھی اہل ِشان تھے مگر آج
دربدر تیری گلیوں میں دیکھا گیا ہوں
دردِ دل کس کو جا کر بتائیں
بد قسمت ہر در سے ٹھکرایا گیا ہوں
یہی محبت ہے جدا ہو کر بھی
آخر تک تیرے ساتھ نبھا گیا ہوں
کیوں تقدیر یہی کھیل کھیلاتی ہے
جہاں،جس میں کئ بار ہارا گیا ہوں