کشتگانِ عشق کے چمن کے
دو شاخ سے بچھڑے ہوئے پھول ہیں
اور انتظار کے موسموں کے ہیں اسیر
یوں تو آج بھی میری دھڑکنوں میں
خوابِ شکستہ کا ارتعاش ہے
یوں تو آج بھی میری سانسوں میں
بار کسی نغمہء گم گشتہ کی یاد کا ہے
یوں تو آج محشر ہی کا سماں ہے
دیکھو قیامت برپا کہاں کہاں ہے
کس امتحاں میں ڈال کے ہمسفر گیا
اِک اور برس عمر کا تجھ بن گذر گیا
سنہرے سپنوں کی تعبیر
تیرے میرے بیچ ایک لکیر
حُسن تو زندگی سے جدا ہونا ہی تھا
بچھڑ کے عشق سے فنا ہونا ہی تھا
پر اب بھی ہیں سب زمانے تیرے
ہاں یہ نظمیں میری ترانے میرے
تیری جدائی کے نوحے ہیں
تجھ سے بچھڑنے کے مرثیے ہیں
ٹوٹے خوابوں کے ماتم میں
میں نے لکھے ہیں
دنوں بعد چند شبنمی موتی
خارِ مژگاں پہ پروئے ہیں
آج بھی لفظ میرے روئے ہیں