کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
جو ہر سجدے پہ خاک ڈال گئی
میں جھکتا رہا امید میں
کہ بندگی میں کچھ بھلا ہو
مگر ہر بار
میرے سجدے بے آواز لوٹے
میری دعائیں ٹھکرا دی گئیں
میرے جذبے، میری وفائیں
اور میرے لبوں کی لرزش
بغاوت ٹھہری
میں بکھر گیا
کبھی خوف کے زخم میں
کبھی اطاعت کی زنجیر میں
میں اب نہ جھکتا ہوں
نہ مانگتا ہوں کسی در سے روشنی
میں نے جان لیا
کہ بندگی جب اندھی ہو
تو عبادت نہیں بنتی
بس غلامی رہ جاتی ہے
اب میں سجدہ کرتا ہوں
مگر کسی اَن دیکھے خدا کو نہیں
اب میں سوال کرتا ہوں
لیکن ضمیر سے
اور جان چکا ہوں
کہ میرا سچ اگر خاموش بھی ہو
تب بھی زندہ ہے
خدا کی طرح
میرے اندر
ابدی