دریا لہروں کی دہائی سے تنگ ہے

Poet: اخلاق احمد خان By: Akhlaq Ahmed Khan, Karachi

دریا لہروں کی دہائی سے تنگ ہے
یہ کیا کہ منصف سنوائی سے تنگ ہے

یہاں باغباں پریشاں ہے بوئے گل کو لے کر
وہاں چاند بھی تاروں کی روشنائی سے تنگ ہے

مجنوں جو تھا کبھی صحرا کا شیدائی
وہ اب وحشتِ صحرائی سے تنگ ہے

مستقبل کا کوئی مستقبل نہیں دِکھتا
حال ہے کہ ماضی کی پرچھائی سے تنگ ہے

دوپٹہ ہے کہ سر پر ٹِکنا نہیں چاہتا
چوڑی ہے کہ ہاتھ میں کلائی سے تنگ ہے

دل لگی میں چاہتا ہے زندگی گزارنا
عاشق آج کا شہنائی سے تنگ ہے

قوتِ سماعت و گویائی کی ہیں من مانیاں
ادھر آنکھ بھی اپنی بینائی سے تنگ ہے

ہم نے دیکھے ہیں ان کے ہی چادروں سے پاؤں نکلتے
جن کے لئے مشہور ہے مہنگائی سے تنگ ہے

آزادیِ طبیعت نے اس درجہ سرکش بنادیا
کہ دلِ غافل خدا کہ خدائی سے تنگ ہے

حصولِ علم اسقدر آسان و عام ہوگیا
کہ ہر ایک دوسرے کی دانائی سے تنگ ہے

کُھل گئے کردار حمایت نہیں چھوٹی
حُب الوطنی جہالت کی ڈھٹائی سے تنگ ہے

لوگ جُتے ہوئے ہیں زندگی رنگیں بنانے میں
اک دل ہمارا ہے کہ رعنائی سے تنگ ہے

اخلاق وہ جس کی دانشمندی چھوتی ہے آسماں کو
یہاں وہ بھی ہماری باتوں کی گہرائی سے تنگ ہے

Rate it:
Views: 539
23 Oct, 2018
More Life Poetry