دریا لہروں کی دہائی سے تنگ ہے
یہ کیا کہ منصف سنوائی سے تنگ ہے
یہاں باغباں پریشاں ہے بوئے گل کو لے کر
وہاں چاند بھی تاروں کی روشنائی سے تنگ ہے
مجنوں جو تھا کبھی صحرا کا شیدائی
وہ اب وحشتِ صحرائی سے تنگ ہے
مستقبل کا کوئی مستقبل نہیں دِکھتا
حال ہے کہ ماضی کی پرچھائی سے تنگ ہے
دوپٹہ ہے کہ سر پر ٹِکنا نہیں چاہتا
چوڑی ہے کہ ہاتھ میں کلائی سے تنگ ہے
دل لگی میں چاہتا ہے زندگی گزارنا
عاشق آج کا شہنائی سے تنگ ہے
قوتِ سماعت و گویائی کی ہیں من مانیاں
ادھر آنکھ بھی اپنی بینائی سے تنگ ہے
ہم نے دیکھے ہیں ان کے ہی چادروں سے پاؤں نکلتے
جن کے لئے مشہور ہے مہنگائی سے تنگ ہے
آزادیِ طبیعت نے اس درجہ سرکش بنادیا
کہ دلِ غافل خدا کہ خدائی سے تنگ ہے
حصولِ علم اسقدر آسان و عام ہوگیا
کہ ہر ایک دوسرے کی دانائی سے تنگ ہے
کُھل گئے کردار حمایت نہیں چھوٹی
حُب الوطنی جہالت کی ڈھٹائی سے تنگ ہے
لوگ جُتے ہوئے ہیں زندگی رنگیں بنانے میں
اک دل ہمارا ہے کہ رعنائی سے تنگ ہے
اخلاق وہ جس کی دانشمندی چھوتی ہے آسماں کو
یہاں وہ بھی ہماری باتوں کی گہرائی سے تنگ ہے