‘ٹُوٹا طلسمِ عہدِ محبت کچھ اس طرح سے
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے‘
‘اِس شہرِ سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اُڑا دینا چاہیے‘
‘جس کے بازو کو تحفظ کی علامت جانا
کر گیا ہے وہی دنیا کے حوالے مُجھے‘
‘اب دعاؤں کے لیے اُٹھتے نہیں ہیں ہاتھ بھی
بے یقینی کا تو عالم تھا مگر ایسا نہ تھا‘
‘کوئی غم دَربَدر نہیں ہو گا
جب تلک میرا دِل سلامت ہے‘
‘حادثے آئیں گے جیون میں تو تُم ہو کے نڈھال
کسی دیوار کو تھامو گے تو یاد آؤں گا‘
‘جس طرح سے خواب میرے ہوگئے ریزہ ریزہ
اِس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی‘
‘تُجھ سے بِچھڑ کر کیا ہوں مَیں، اب باہر آ کر دیکھ
ہمت ہے تو میری حالت آنکھ مَلا کر دیکھ‘
‘عُمر بھر جلنے کا اَتنا تو صَلہ پائیں گے ہم
بُجھتے بُجھتے چند شمعیں تو جَلا جائیں گے ہم‘
‘پھر کبھی لَوٹ کر نہ آئیں گے
ہم تیرا شہر چھوڑ جائیں گے‘