دستِ گُل چیں میں کھِل رہی ہے کلی
میرے جینے سے اس کی موت بھلی
ابتلاء ابتدائے ذوقِ عمل
یعنی طوفاں اُٹھا تو ناؤ چلی
صُبحِ زرّیں، چتا امنگوں کی
رات کے ساتھ ہی وہ بات ٹلی
شاخِ اُمیّد کی بہار نہ پوُچھ
برسوں پھوُلی مگر کبھی نہ پھسلی
چشمِ سرشار میں حیا چمکی
ساغرِ مے میں چاندنی کی ڈلی
گردشِ چشم ہے کہ گردشِ دہر
پلکیں جُھکنے لگیں کہ دُھوپ ڈھلی
کائنات ایک دشتِ بے انجام
اب کہاں ڈھونڈیے کِسی کی گلی