دسمبر بھی گزر گیا
Poet: Mubashar Islam By: Mubashar islam , Lahoreدسمبر کی باد صبح اسے کہہ دینا 
 کہ دسمبر بھی گزرنے والا ہے 
 دسمبر کی ٹھٹھرتی راتیں جو تیرے ہجر میں کٹیں 
 کئی صبحیں کئی شامیں میرے ماضی کا اک حصہ 
 دسمبر کی دھند میں ہم آغاز محبت کر بیٹھے 
 میری آشفتہ آنکھوں نے تم سا کوئی 
 سال نو میں جب بھی دسمبر آتا ہے 
 وہ آخری شب جس دن ہم بچھڑے تھے اک دوسرے سے 
 اس دن کی یادیں سال بھر 
 مجھے تڑپاتیں ہیں 
 دسمبر کی سرد ہوا جب چھو کر گزرتی ہے 
 اپنے چار سو تیری خوشبو محسوس کرتا ہوں 
 نئے سال کا جب سورج طلوع ہوتا ہے 
 گزرے ہوئے برس کے اوراق 
 ایک اک کر کے بند ہو جائے ہیں 
 میری یادیں، میری تمنائیں، میری آرزوئیں میری حسرتیں 
 میرے گلے سے لپٹ جاتی ہیں 
 میں ناکام حسرتیں لیے آنکھویں موند لیتا ہوں 
 اور سوچتا ہوں 
 دسمبر کی شب اسے کہہ دینا کہ اب لوٹ آئے 
 کیوں کہ 
 دسمبر بھی گزر گیا ہے 
 
 دسمبر کے اختتام پر ایک مخصوص ہستی کے لیے لکھی
 گئی نظم جسکی یادیں اب میرے ساتھ ہیں اور وابسطہ 
 رہیں گی 






