دشت والوں نہ بحر والوں سے
اک تعلق ہے شہر والوں سے
اب تو شاءد مجھے بھی پینا پڑے
ملنا جلنا ہے زہر والوں سے
اب بھی آتا ہے سیر کرتا ہے؟
آج پوچھوں گی نہر والوں سے
اپنا جو بن کبھی چھپایا نہیں
میں جوبن کی لہر والوں سے
دین داری کی کچھ نہ فکر رہی
دل لگایا ہے دہر والوں سے
مجھ پہ غیض و غصب رہا وشمہ
رابطہ تھا جو قہر والوں سے