دشتِ فرقت میں ترا ساتھ نبھانے نکلے
رات تارے بھی ترا روپ چرانے نکلے
تیرے چہرے کی دھنک دیکھ کہ ہو سکتا ہے
حسنِ فطرت تجھے ہر حال میں پانے نکلے
ایک ہی راہگزر انکے نگر جاتی ہے
اسُ ڈگرمیں جو چلا تھا کہ فسانے نکلے
ناخدا میرے سفینے کا بہت اچھا تھا
ڈوب کر ہم کو بھی لے ڈوبا زمانے نکلے
آرزو اب بھی اُسی کوئے ستم کی ہے تجھے
دل سے پوچھا ہی تھا اور لاکھ بہانے نکلے
کل کی طرح سے ترے عاشقی کے غم احمر
عنبریں کوچہ و گلزار کو جانے نکلے