معلوم نہیں کیسی ضرورت نکل آئی سر کھولے ہوئے گھر سے شرافت نکل آئی میدان سے اب لوٹ کے جانا بھی ہے دشوار کس موڑ پہ دشمن سے قرابت نکل آئی وہ خوش ہے کہ بازار میں گالی مجھے دے دی میں خوش ہوں کہ احسان کی قیمت نکل آئی