دشمن ہو اگر تو دوست ہمارے بھی بہت ہیں
اس شہر میں بستے کچھ پیارے بھی بہت ہیں
کرتے ہیں تم سے کسی حوالے سے ہم بات
ورنہ یہاں چاہنے والے ہمارے بھی بہت ہیں
کیوں ہو رہے ہو برہم آپ ہم سے جناب
آج آپ کے یہ تیور نیارے بھی بہت ہیں
ساحل پر کھڑے ہو کر دیکھتے ہو لہروں کو
سمندر میں ڈوبنے کے نظارے بھی بہت ہیں
نہیں ہے جن کو میسر دال روٹی یہاں
ایسی غربت کے مارے بھی بہت ہیں
ہے بہت کچھ باقی غیبت کے سوا بھائی
رہتے تو ابھی کام تمھارے بھی بہت ہیں