سن لی جو خدا نے وہ دعا تم تو نہیں ہو
دروازے پہ دستک کی صدا تم تو نہیں ہو
سمٹی ہوئی شرمائی ہوئی رات کی رانی
سوئی ہوئی کلیوں کی صبا تم تو نہیں ہو
محسوس کیا تم کو تو گیلی ہوئیں پلکیں
بھیگے ہوئے موسم کی ادا تم تو نہیں ہو
ان اجنبی راہوں میں نہیں کوئی بھی میرا
کس نے مجھے یوں اپنا کہا تم تو نہیں ہو