دعائیں، آرزو، تیرے ہی ارمان رکھتے ہیں
تیرے لوٹ آنے کے بڑے امکان رکھتے ہیں
میری وحشت، میرا جنوں بے سبب کچھ نہیں
بڑے اسباب مجھے اکثر پریشان رکھتے ہیں
بڑے ہی ماہر ہیں لوگ افسانے بنانے میں
تیرے سامنے خود کو تبی انجان رکھتے ہیں
اتنی بے رخی بھی واجب نہیں تم پر
چلو کچھ نہیں مگر کچھ پہچان رکھتے ہیں
سوچتے ہیں بھلا دیں ہم بھی تمہیں مگر
مشکل ہے تم میں اپنی جان رکھتے ہیں
کون کٹھن راہوں میں ہمسفر بنتا ہے
محبت بھی لوگ ذرا آسان رکھتے ہیں
ستم گری میں بھی اتنا یاد رکھنا تم
صابر بہت ہم مگر جان رکھتے ہیں
اسے بھی یاد ہو شاید میری طرح عنبر
ظرف والے ہمیشہ یاد عہد و پیمان رکھتے ہیں