دعوہِ عشق پہ ویرانیوں کے بسیرے ہوئے
اِک میں ہی تیرے کوچے کو گھیرے ہوئے
یہ باتوں سے اب کہاں محبتیں پلتی ہیں
جا کے دیکھ روشنیوں میں بھی اندھیرے ہوئے
کوئی تسلی کوئی آہٹ میرے سوا نہ ہوگی
تو بے وجہ مجھ سے دِل کو پھیرے ہوئے
ہنر نہیں مجھ میں اس دنیاداری کا
ورنہ لے آتا وہ خواب جو تیرے ہوئے
گِلہ کیسا کہ تجھے کوئی اپنا نا سکا شمس
پھر بھی حیرت یہ کہ نا تم میرے ہوئے