دغاء انسان سے اٹھ میرا وفاءایماں گیا
ظاہر سیرت فرشتہ اندر دیکھا ہو حیراں گیا
نام ِخدا سے ہے جنکو ملتا مقامِ عزت جہاں
قلبِ سیاہ سے جلتا دیا خود اپنے پہ قرباں گیا
نام سے شہرت نہیں تو در سے گھر نہیں
جو خود کو نہیں بھولا دور اس سے لا مکاں گیا
ایک جسم و جاں میں رکھتے دو الگ فریب روپ ہیں
سوکھے پھول ہیں سب نام رکھا گلستاں گیا
خوش قسمت ہیں گل و گلزار عداوت خار رکھتے ہیں
ہر بشر عظیم کا ہاتھ اپنے ہی گریباں گیا
میرا فرش ِملک ادنیٰ تیرا عرشِ فلک عظیم
حاکمیتِ فرعون نہ رہی مگر چھوڑ نفرت نشاں گیا
اسلاف اسلام تو ہے سفینہ محبت مقامِ مصطفےؑ
زمام رفعت ِمقام میں کھوتا بھٹکا انساں گیا