دل کو درکار ہے تیری ذات سے جدائی اب
ناراض ہے ہم سے ہم بھی اور خدائی اب
ساری عمر گزار دی بے کار سوچومیں
کہاں سے دیں ضمیر کو کوئی کمائی اب
ارادہ بنا لیا ہے تجھ سے جدا ہونا ہے تو
کیوں کر دیں تم کو کوئی بھی صفائی اب
سب نے تھوڑا تھوڑا دیا پیار سے ہمیں
بن چکا ہے زہر زندگی میری اور دوائی اب
زندگی قید کی صورت ،میں انتظار میں ہوں
کنول کب ہو گی اس پنجرہ سے رہائی اب