پردہ ہٹا جو آنکھ سے کھلتی گئی زمیں
سب لوگ ٹوٹے کتبوں پے ہونے لگے مکیں
پرستش تھی آگ کی اور پتھر کا تھا وجود
بے حس بتوں کے سامنے جھکتی گئی جبیں
مشکل تھی راہ گزر اور مبہم تھا راستہ
پربت کے اس پار کی وادی تھی بڑی حسیں
کچھ اپنا فیصلہ تھا ناں آئیں گے فکر میں
پر الجھے ہوئے خیالوں کی صورت تھی دلنشیں
آتش کدے کی آگ پگھلاتی تھی سوچ کو
شمع کے رقص مں تھی شامل دل افروز روشنی