کچھ انجانے رستے
اور کچھ خواب سہانے
جن کو پانے کیلیئے رتجگوں کے ہزار لمحے
کچھ تھکے ہوئے آنسو
جو پلکوں پہ رکے رہے دیر تک
کہ جن کو پینا بھی آسان نہیں
اور کھونا بھی آسان نہیں
رات کی تنہائیاں
اور دن کے بے شمار لہجے
جو ایسے ثبت ہیں اس زندگی پہ نقش ہیں
کہ جن کو مٹانا بھی آسان نہیں
بکھری زلفیں بکھری سوچیں
بکھری ہر اک چیز کے ساتھ
منزل کے تعاقب میں
ننگے سر اور ننگے پاؤں
صدیوں سے اک سفر میں رہتے
بالآخر بات یہاں تک پہنچی
ماتھے پہ سوچ کی سلوٹیں اور
بالوں میں چاندی اتری ہے
پھر بھی اک سراب ہے منزل
اب تو ایک عزاب ہے منزل