دل مرا اس بت پہ فدا ہو گیا
کوئی تو بتلائے یہ کیا ہو گیا
سانس کا لینا بھی سزا ہو گیا
ہائے، یہ کیا میرے خدا ! ہو گیا
جام اسے پھر نہ عطا ہو سکا
پیر مغاں جس سے خفا ہو گیا
اک نئی مشکل میں یہ جاں پھنس گئی
ماجرا در پیش نیا ہو گیا
ایسے ہے ٹوٹے ہوئے دل کی صدا
جیسے کوئی نغمہ سرا ہو گیا
گردش ایام ! ترے فیض سے
دوست تھا، دشمن جو مرا ہو گیا
ہم رسن و دار تک آ ہی گئے
غمزہ ترا قہر و بلا ہو گیا
ختم نہ ہو پائے گی لو اس کی اب
اشکوں کا روشن جو دیا ہو گیا
دیکھئے اس بت کی ستم پروری
نام وفا سن کے خفا ہو گیا
وہ جو سر بزم ہوئے مضمحل
سمجھو مرا نالہ رسا ہو گیا
جاتی رہی رسم سلام و دعا
ایسا بھی کیا کار خطا ہو گیا
ہم سے فقیران وفا خو کو ، تو
طعنہ بھی حرف دعا ہو گیا
کہتے ہیں رومی ! اسے معراج شوق
موجہ خوں ، رنگ حنا ہو گیا