دل نہیں ملتا سرو بازار مل گیا
اس قوم کی قفس مے کیا قرار مل گیا
چاہا تھا ایک لمحہ خوشی کا با ادب
بدقِسمتی سے درد کا سںسار مل گیا
پھولوں کو دیکھتا تھا الجھے ہوئے کانٹو سے
اور باغو کو بے رکھی کا دیوار مل گیا
تھا فاصلہ دیوارو کا کچھ ہمارے درمیاں
اُسمے بھی اِبتدا کا ایک درار مل گیا
غرُبت مے کاٹ دی ہے ہر لمحہ زندگی کا
آخر مے جو مِلا ہے سب بیکار مل گیا