کیوں اس شوخ کی نظروں کو سنمبھالا جائے
دل وحشی سے اس شخص کو نکالا جائے
یہ ممکن ھے کہ تیرے ظلم پہ خاموش رھوں
یا تیرے رنگ میں خود کو بھی ڈھالا جائے
تجھ کو معلوم ھو کہ تنہائی کی حقیقت کیا ھے
رات کی وحشت کو تیرے آنگن میں اچھالا جائے
غم کی شدت میں بھی زخموں کو سمیٹا میں نے
درد کی صورت میں پھر اسی روگ کو پالا جائے
میرے قاتل کو اداؤں میں بڑی سبقت ھے
بڑی مشکل ھے کہ اسے بزم سے نکالا جائے