جاگتی رات کے ہونٹوں پہ فسانے جیسے
اِک پل میں سمٹ آئے ہوں زمانے جیسے
عقل کہتی ہے بُھلا دو، جو نہیں مل پایا
دل وہ پاگل کہ کوئی بات نہ مانے جیسے
راستے میں وہی منظر ہیں پرانے اب تک
بس کمی ہے تو، نہیں لوگ پرانے جیسے
آئینہ دیکھ کے احساس یہی ہوتا ہے
لے گیا وقت ہو عمروں کے خزانے جیسے
رات کی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو وصی
مخملی گھاس پہ موتی کے ہوں دانے جیسے