دل پُر اضطراب نے مارا
اسی خانہ خراب نے مارا
میری آنکھوں سے ہے عیاں پسِ مرگ
نرگسِ نیم خواب نے مارا
دیکھ لینا کہ حشر کا میدان
میرے حاضر جواب نے مارا
یاد کرتے ہو غیر کے اشعار
ہائے اس انتخاب نے مارا
دل لگاوٹ نے کردیا بسمل
اور پھر اجتناب نے مارا
جس کو ڈھونڈ ا مِلا نہ کعبے میں
ایسے خالی ثواب نے مارا
جان بچتی نظر نہیں آتی
اب نگاہِ عتاب نے مارا
تھک گئے ہاتھ لکھتے لکھتے خط
اس سوال و جواب نے مارا
جاچکیں خلد میں کہ دوزخ میں
طول روزِ حساب نے مارا
وصل دیکھا اگر وصال ہوا
مجھ کو تعبیر خواب نے مارا
میری میت پہ کیوں نہ برسے نور
غیرتِ آفتاب نے مارا
مجھ کو بیتاب دیکھ کر بولے
آپ کے اضطراب نے مارا
دیکھ کر جلوہ غش ہوئے موسٰی
داغ مجھ کو حجاب نے مارا