دل کو فریب کھانے کی عادت ہے
روتے روتے بہل جانے کی عادت ہے
شام ڈھل رہی ہے تنہائی عروج پر ہے
رات کسے سونے کی عادت ہے
دورجل رہے ھیں منڈھیر پر دئیے
انتظار کو چراغ جلانے کی عادت ہے
سکون ملتا ہے کب اک طلاطم ہے
اور دل کو ڈوب جانے کی عادت ہے
شمع خود پگل کر ختم ہو رہی تھی
ہوا کو کیوں بجھانے کی عادت ہے؟