دل کو پھر یاد وہی بیتے زمانے آئے
کچھ ادھورے لبوں پہ آج فسانے آئے
نیند آئے نہ آئے یہ تو مگر ہوتا ہے
جاگتی شب میں کئی خواب سہانے آئے
پھر غم ہجر کی محفل سجی تنہائی میں
سوز میں ڈوبا ساز کوئی سنانے آئے
آنکھوں میں شکوہ زباں پہ شکایتیں لئے
وہ ہم سے خوب وفا داری نبھانے آئے
صبا کے سنگ نرم نرم اوس کے موتی
صبح صبح گلوں کا روپ سجانے آئے
کیسے انکار کیا جاتا ہے اپنوں کے ساتھ
ہمیں کبھی یہ بہانے نہ بنانے آئے
زندگی کا یہ کھیل ہم نے یوں کھیلا عظمٰی
نہ ہم روٹھے نہ ہمیں وہ ہی منانے آئے