کبھی دروازہ ھوں دیکھتی کبھی چھت پھ ھوں جاتی
میں بھی کیا پاگل ھوں کہیں چین نہیں پاتی
جانتی ھوں ھوا نے ہلا یا ھے آج پھر دروازہ
مگر کیا کروں تیرے آنے کی آس نہیں جاتی
تیرا انتظار کانٹے چبھوتا ہے اب تن بدن میں
کوئی بھی سانس درد سے خالی نہیں جاتی
جب سے تیرے نام لگی ہوں گاؤں کے رستے تکنے لگی ہوں
شب وصل ہے کہ نہیں آتی جان ہے کہ مگر نہیں جاتی
لوگ بھی کہتے ہیں حالات بھی بتاتے ہیں کہ تو ہرجائی ہے
مگر تجھ سے دل کا رشتہ ہے میں دل کو کبھی سمجھا نہیں پاتی
دم نکلنے سے پہلے وہ آ جائے تو اچھا ہے عافرہ
کہ مٹی کی ڈھیری کبھی لذت ملاقات نہیں پاتی