دل کی وادی میں اب غمی نہ رہے
حال دل کا یہ ماتمی نہ رہے
زندگی میں بھی زندگی نہ رہے
" عشق مرشد یہ بے بسی نہ رہے"
میری آنکھوں میں تازگی نہ رہی
نغمے ہونٹوں پہ شبنمی نہ رہے
کیا کروں گی میں ان ستاروں کا
چاند میں بھی جو چاندنی نہ رہے
تیری یادوں کے آسماں پہ ابھی
چاند تاروں کی اب کمی نہ رہے
دل کی حدت سے آؤ پگھلا لیں
برف ہجرت کی یہ جمی نہ رہے
"سانس ٹوٹے مگر تھمی نہ رہے"
پھر بھی ممکن ہے زندگی نہ رہے
جب سے پتھر کے ہو گئے ہیں ہم
میرے کوچے میں آدمی نہ رہے
چاند تارے سجائیں گر محفل
شب کے ہونٹوں پہ خامشی نہ رہے
اب پلا دو نہ گھول کر امرت
میرے ہونٹوں پہ تشنگی نہ رہے
وشمہ میں تو یہ چاہتی ہوں سدا
میری دشمن سے دشمنی نہ رہے