دل کے اندر بے قراریاں بڑھتی گئیں
تجھ کو پانے کی تمنائیں بڑھتی گئیں
زندگی نے ایسا کچھ جینا بیزار کیا
موت سے قربتیں بڑھتی گئیں
محبت الفاظ میں قید ہو گئی
دنیا میں بے وفائیاں بڑھتی گئیں
پھولوں کی نہیں ہے تمنا ہمیں
خزاں سے دوستیاں بڑھتی گئیں
ہونٹوں پہ مسکان دل میں طوفان
یکجا ہوئے تو آنسوؤں کی لڑیاں بڑھتی گئیں
خود سے ہی دوستی نہیں ہے اپنی
اس لئے تو خود سے دوریاں بڑھتی گئیں