دل کے برباد جزیروں کی خبر لے کوئی
کاش بےحال فقیروں کی خبر لے کوئی
کیوں جلا اِن کے چراغوں میں غریبوں کا لہُو
میری بستی کے امیروں کی خبر لے کوئی
خوں گری عام ہے اور حرفِ ملامت بھی نہیں
ہیں کہاں مُردہ ضمیروں کی خبر لے کوئی
کیوں ترقی نہیں کر پایا ابھی تک کوئی شہر
کاش نااہل وزیروں کی خبر لے کوئی
پھر کسی سیپ کے آنگن میں چُھپے بیٹھے ہیں
جا کے ساحل پہ وہ ہیروں کی خبر لے کوئی
جانے کس حال میں ہیں زِندہ بھی ہیں یا مر گئے
ہجر کے مارے اسیروں کی خبر لے کوئی
کِس نے پیغامِ محبت میں ملاوٹ کی ہے
عشق کے سارے سفیروں کی خبر لے کوئی
میری قسمت میں کہیں وصل لکھا ہے کہ نہیں
میرے ہاتھوں کی لکیروں کی خبر لے کوئی
آج کیوں مجھ کو ستانے نہیں آئے باقرؔ
بچے کِس کے تھے شریروں کی خبر لے کوئی