دل کے بہلانے کی تدبیر تو ہے
تُو نہیں تیری تصویر تو ہے
ہم سفر چھوڑ گئے مجھ کو تو کیا
ساتھ میرے میری تقدیر تو ہے
قید سے چُھوٹ کے بھی کیا پایا
آج بھی پاؤں میں زنجیر تو ہے
کیا مجال اُن کی نہ دیں خط کا جواب
بات تو باعثِ تاخیر تو ہے
پرستشِ حال کو وہ آ ہی گئے
کچھ بھی ہو عشق میں تاثیر تو ہے
غم کی دنیا رہے آباد شکیل
مُفلسی میں کوئی جاگیر تو ہے