دل کے درد کے کم ہونے کا تنہا کچھ سامان ہوا
ہم بھی اب کے دن جی لیں گے اس کا بھی امکان ہوا
ایک دیے کی لو نے سارا شہر جلا کر خاک کیا
ایک ہوا کا جھونکا بن کر آندھی اور طوفان ہوا
آرزوؤں کی نیچی سانس نے اس در پر دستک دی
اور جنوں کا اک اک لمحہ میرے گھر مہمان ہوا
وقت کا کٹنا اس سے پوچھو ہجر میں جس کی گزری ہو
ایک اک لمحہ ایک صدی تھا کب ہم پر آسان ہوا
کوئی کسی کا میت نہیں ہے دنیا کہتی آئی ہے
ہم نے جس کو اپنا جانا وقت پہ وہ انجان ہوا
عشق اڑانوں کا دشمن ہے کیا اس کو معلوم نہ تھا
دل کا پنچھی قید میں آ کر کیوں اتنا حیران ہوا
تنہا ان کی گل افشانی کچھ نہ پوچھو کیسی ہے
جب بھی حضرت واعظ بولے سب کا جی ہلکان ہوا