زخم جتنے تھےسبھی دل پہ لگائے ہم نے
پھر بھی آنکھوں میں کئی خواب سجائے ہم نے
کتنے نازک سے ہوتے ہیں یہ پھول مگر
جتنا پھولوں میں رہے زخم ہی کھائے ہم نے
اس کی اک بات سے اندر کا سب کچھ ٹوٹ گیا
اپنے ہاتھوں سے کئی ٹکڑے اٹھائے ہم نے
آج پھر آگ لگی اور دھواں اٹھتا رہا
پھر بھی یہ ضبط کے آنسو نہ بہائے ہم نے
اپنی منزل پہ پہنچ کے وہ ہمیں بھول گیا
جس کی راہوں میں کئی دیپ جلائے ہم نے