دماغ و ذہن پہ چھائی یہ ظلمتیں نکلیں
کسی طرح تو مرے دل سے وحشتیں نکلیں
یوں مجھ کو وقت کے حاکم نے قتل کر ڈالا
میں چاہتا تھا کہ گاؤں سے غربتیں نکلیں
خطیبِ شہر سے جاں چھوٹے تب ہی ممکن ہے
دلوں میں نقش یہ بغض و عداوتیں نکلیں
معاشرے میں برائی کو روکنا ہے اگر
جڑیں برائی کی پہلے تو صحبتیں نکلیں
ہر ایک شہر میں ہی المیہ دکھائی دے
منافقت کو نکالیں تو غیبتیں نکلیں
وہ ایک بار جسے ہجر گھیر لیتا ہے
اسی کے حصے میں ساری مصیبتیں نکلیں
مری نمازوں میں باقرؔ خلل یہ ڈالتی ہیں
یہ میرے ذہن سے مٹی کی مورتیں نکلیں