دن رات میں ڈھلتا رہا
رات دن میں ڈھلتی رہی
کہاں سے چلی تھی
نجانے ہر بات ہی کیوں
صرف تجھ پے آ کر ُرکتی رہی
تیری یاد آئی تو پھر
بہت دیر تک
میری تنہائی مجھے
اندر ہی اندر ڈستی رہی
رونقوں کے شہر میں بھی
رہتے رہتے تجھے بھلا نا سکے
جہاں سے بھی چلنا شروع کیا
دل میں تیری ہی آس رہی
تلخی ، غصہ اب لباس ہے میرا
میں نے جب ہی ُاسے
بدلنا چاہا تیری
بے بسی مجھ پے بہت بھاری رہی
میں کس طرح سے ہو گیا تھا
تجھ سے بے وفا یہی سوچ سوچ کر
برسوں سے میرے اندر ملال کی آگ جلتی رہی