دن کی جھلک ذرا سی تھی پھر رات آگئی
بدلے میں اس جھلک کے با ثبات آگئی
آنکھیں پھر اختیار سے باہر نکل گئیں
باتوں میں زیر بحث تیری ذات آگئی
محفل نے روشنی کے مزے خوب لے لئے
ہم نے دئے جلائے تو برسات آگئی
ملکہ تھا ہم کو وعظ میں ہر بات پہ لیکن
خاموش رہ گئے جو تیری بات آگئی
خوشیوں کے ڈھیر میں جو ہاتھ ڈال کے دیکھا
تو ہاتھ اپنی دکھ بھری حیات آگئی
دو پل کی ملاقات کیا اس سے ہوئی غنی
لگتا ہے بس میں پوری کائنات آگئی