صبح تیری ہے، تو اے خالقِ صبح
رات ہے کس کی کرم فرمائی
گرتے ہوُئے پتّے ہوں کہ سینہ کے جھالے
ہر چیز میں گنگنا رہی ہے تخلیق
یہ گزرتے ہوُئے پل ہیں کہ تری آنکھیں ہیں
دن ہے آنسو کی طرح، رات ہے کاجل کی سی
آتشِ عشق جلاؤ کہ سفر ہے دشوار
راہ میں کتنے عقیدوں کا گھنا جنگل ہے
اِک سفینہ ہے تری یاد اگر
اِک سمندر ہے مری تنہائی