دل کو اپنے
یہ کیا ہوا؟
سنبھلتا ہی نہیں
بہلتا ہی نہیں
شادمانی میں بھی
مچلتا ہی نہیں
زور سے اب یہ
دھڑکتا ہی نہیں
اداسیوں نے
محرمیوں نے
مایوسیوں نے
حسرتوں نے
لگا لئے ہیں
ڈیرے اس میں
اور اب اس میں
نہ کوئی
امید ہے باقی
نہ کوئی
حوصلہ اور ہمت
برداشت اور صبر
ہے باقی
بس
انتظار ہے
زندگی کے سفر
تمام ہونے کا
اور
گہری شام ہونے کا
کیونکہ
نہ کوئی کرن
دکھائی دیتی ہے
نہ کوئی آس
دکھائی دیتی ہے
وطن میں اپنے
کچھ ایسا دکھائی دیتا ہے
کہ
نہ کوئی ہے اپنا
محافظ اور نہ منصف کوئی
نہ قائد کوئی نہ مخلص کوئی
نہ صادق کوئی نہ امین کوئی
پھر کیسے یہ دل
سنبھلے، بہلے، مچلے
یہاں پر ہوگئی
سستی موت
مہنگی زندگی
پرواہ نہیں کسے بھی
سسکتے بلکتے تڑپتے
بھوک سے مرتے
انسانوں کی، نونہالوں کی
بس فکر لگی ہے
سب کو
اپنا آپ بنانے کی
اپنا مفاد پانے کی
دکھ اووروں کو
دے کر خوشیاں
اپنی منانے کی
مگر
بھول گئے ہیں
سب
کہ آخر اک دن
مرنا ہوگا
جو کیا ہے
وہ بھرنا ہوگا