دنیا میں محبت کا اگر نام نہ ہو گا
پھر جور و جفا کا تو کوئی کام نہ ہو گا
وہ آج اگر میری بھی آنکھوں سے نہ نکلا
دریا کی نگاہوں میں کوئی جام نہ ہو گا
اب تم ہمیں محفل میں بٹھاؤ یا اٹھاؤ
"بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
امید پہ قائم ہے ترے پیار کی دنیا
جذبہ ہے محبت کا یہ ناکام نہ ہو گا
تم اپنی وفاؤں کے دیئےپھر سے جلا لو
اس بار سویرا یہ کبھی شام نہ ہو گا
آئیں گی بہاروں میں سبھی پیار کی کلیاں
گلشن میں مگر پھول سا گلفام نہ ہو گا
اس شہر کے لوگوں میں محبت کو لٹا کر
لگتا ہے قمر موردِ الزام نہ ہو گا