دنیا میں کسے آگ لگانی نہیں آتی
افسوس مگر سب کو بجھانی نہیں آتی
تا حد نظر دشت ہے کیوں بیٹھے ہوئے ہو
لگتا ہے تمہیں خاک اڑانی نہیں آتی
وہ شوخ ہے باتوں میں لگا رہتا ہے اکثر
سنتا ہوں مجھے بات بنانی نہیں آتی
بستر کی ضرورت ہی نہیں نیند کو پیارے
کیا جسم کی چادر ہی بچھانی نہیں آتی
بجھتی ہی نہیں آگ لگی ہے جو جگر میں
لیکن مرے اشکوں میں روانی نہیں آتی
خوشبو سے مہکتی ہی نہیں رات ہماری
خوابوں میں اگر رات کی رانی نہیں آتی
نادان مری میز کے شیشے پہ گرے ہیں
اشکوں کو بھی تصویر بنانی نہیں آتی
میں خود بھی کھلونوں کا طرف دار رہوں گا
جب تک مرے بچوں پہ جوانی نہیں آتی
میں صرف حقیقت ہی بیاں کرتا ہوں اعجازؔ
افسانہ نہیں آتا کہانی نہیں آتی