دنیا کی زندگی تو پانی کا بلبلا ہے
Poet: عبدالحفیظ اثر By: عبدالحفیظ اثر, Mumbaiدنیا میں جو آیا ہے اسے جانا ہے
ہر شے کو یہاں کی تو فنا پانا ہے
جب موت کا پروانہ کبھی آ جائے
مہلت نہ کسی کو پل کی مل پانا ہے
دنیا کی زندگی تو پانی کا بلبلا ہے
جلتا چراغ پل میں بجھتا ہوا ملا ہے
جو نامور تھا پہلے وہ بے نشاں ہوا ہے
تو موت کے ہی آگے سب کا ہی سر جھکا ہے
نہ آرزو کسی کی پوری ہوئی جہاں میں
گرچہ طویل پائی یہ زندگی جہاں میں
آباد تھے مکاں جو کھنڈر وہ سب پڑے ہیں
کتنے چلے گئے ہیں کچھ دن ہی گِن رہے ہیں
دیکھو ذرا دھیاں سے وہ قومیں جو تھیں پہلے
تھی خوب ان کی طاقت ہر سو تھے اُن کے چرچے
پورس ہو یا ہلاکو فرعون یا سکندر
پوری ہوئی نہ حسرت نہ کچھ ہوا مٌیسّر
رہ جائے گا یہیں پر دنیا کا یہ فسانہ
کچھ بھی نہ ساتھ دے گا دنیا کا یہ خزانہ
کتنے جنازے تو نے اٹھتے ہوئے ہی دیکھے
کتنے ہی مال والے مٹتے ہوئے ہی دیکھے
نہ ٹھاٹ باٹ باقی نہ ساتھ کچھ گیا ہے
افسوس اپنی دولت سے ہاتھ دھو لیا ہے
دنیا کی زندگی تو پانی کا بلبلا ہے
جلتا چراغ پل میں بجھتا ہوا ملا ہے
دنیا کی یہ محبت دل میں نہ ہی سمائے
دل کی جو اپنی کشتی اس میں نہ پانی آئے
یہ چند روزہ دنیا اس میں نہ تو ہی کھو جا
غفلت سے باز آ جا اس کا نہ تو ہی ہوجا
دنیا میں جس کسی نے اپنا جو جی کھپایا
دنیا نے نہ کسی کا تو ساتھ ہی نبھایا
ننانوے کے چکر میں سب کا جی ہے الجھا
دنیا میں دل لگا ہے ہو کیوں نہ فکرِ عقبیٰ
زیبا نہیں ہے تجھ کو یہ وقت کا گنوانا
یہ وقت ہے غنیمت جو قیمتی بنانا
دنیا کے اے مسافر غفلت میں کیوں پڑا ہے
کب سانس آخری ہو کس کو نہ کچھ پتہ ہے
کرنا ہے جو بھی نیکی وہ کر لے تو یہیں پر
کیا موت کا بھروسہ آجائے بس کہیں پر
جو توشہ اخرت کا وہ اپنا آسرا ہے
غفلت میں جو ہے ڈوبا اس کا نہ کچھ بھلا ہے
دنیا کی زندگی تو پانی کا بلبلا ہے
جلتا چراغ پل میں بجھتا ہوا ملا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






