دو بھید بھری آنکھیں
اک خواب کی چلمن سے
ہر رات مجھے دیکھیں
دو بھید بھری آنکھیں
ہر صبح کو چڑیوں کی
چہکار میں ڈھل جائیں
پھولوں کی قبا پہنیں
شبنم میں* بدل جائیں
ہر شام ہواؤں سے
احوال میرا پوچھیں
دو بھید بھری آنکھیں
کرتی ہیں عجب باتیں
کاجل کی زباں سے یہ
دل لیتی چلی جائیں
انداز ِ بیاں سے یہ
دو بھید بھری آنکھیں
اک خواب کی چلمن سے
ہر رات مجھے دیکھیں
دو بھید بھری آنکھیں