صبح کاذب کو شام کے سحر میں ڈھلتے دیکھا
تیرے روپ کو خاموشی سے اس تغیر سے گزرتے دیکھا
گردش دوراں میں تجھ کو بے آب و دانہ بھٹکتے دیکھا
کبھی قوس قزاح میں تیرے حسن کو نکھرتے دیکھا
جو ڈوب رہے تھے تجھ کو پانے کی خواہش نیرنگ میں
انکی چاہت کے انجام کو تیری آغوش میں بے رنگ دیکھا
لا ریب تو گوہر نا یا ب ہی سہی مگر دو دن کا ہے بازیچہ
یہا ں تیرے حاصل کا انت بھی یوں لا حاصل ہی دیکھا
گر تو زہر قاتل نہیں تو یوں اجل بھی تو با طل نہیں
لمحہ با لمحہ کھیل میں زندگی کو ہی بازی ہارتے دیکھا