جو بھی میرا فر ض تھا وہ میں اداکر تا رہا
وہ جفا کر تا رہا اور میں وفا کر تا رہا
دو ست بن کر سا منے آ تے ر ہے دشمن سبھی
ہر کسی کامسکر ا کرسامنا کرتا رہا
تیر اس کے نام کے تر کش میں ہیں میر ے بہت
وہ نشانے پر رہا آور میں خطا کر تا رہا
میں نہ جاتا میکیدے میں لے کے اس کا غم
درد دل کے واسطے میں بھی دوا کر تا رہا
گردش دوراں کے آگے سر کبھی نہ خم کیا
رب کی رحمت کے بھروسےپر دع کر تا رہا
غیر کی محفل میں تیرا یہ اعزاز ہے
دشمنوں سےدوستی کا حق ادا کرتا رہا