(94)
میری دھڑکنوں کے قریب تھے میری چاہ تھے میرا خواب تھے
جو روز و شب میرے پاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
(95)
جیسے ترستا ہے صحرا شبنم کے چھونے کو
کبھی ویسے رب سے تم بھی مجھے مانگ لو
(96)
سنبھل کر تم ذرا چلنا محبت کے ان رستوں پر
یہاں پہ درد کے رستے بہت ہموار رکھے ہیں
(97)
لفظوں سے ہوتا نہیں اظہار ہم سے پیار کا
بس میری آنکھوں میں دیکھ کر خود کو پہچان لو
(98)
وہ ابھی اِس طرف سے گزرا ہے
یہ زمیں آسماں سی لگتی ہے
(99)
ہاتھ اُلجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جُدا کس سے کریں
(100)
جو ہونا ہے وہ ہو کر ہی رھے گا
تم آخر اس قدر کیوں سوچتے ہو
(101)
ہمیں عزیز ہو کیونکر نہ شامِ غم کہ یہی
بچھڑنے والے، تیری آخری نشانی ہے
(102)
پہلے اُترا میں دل کے دریا میں
پھر سمندر اُتر گئے مجھ میں
(103)
لوگوں نے میری شکل کے ٹکڑے اٹھا لیئے
تصویر میرے چاہنے والوں میں بٹ گئی
(104)
اُس کی آنکھیں تو سمندر سے بھی گہری تھیں
مسعود تیرنا تو آتا تھا مگر ڈوبنا اچھا لگا
(105)
باتوں باتوں میں میرا ذکر بھی لے آئیں گے
اُن کی باتوں کا ذرا سا بھی اثر مت لینا