دو پل نہ اس نے انتظار کیا
بھری دنیا میں مجھے خوار کیا
حسرتوں کو نکال کر کہاں پھینکوں
انہوں نے تو جینا دشوار کیا
سب سناؤں گی اُس کے آنے پر
کیا کیا نہ اُس نے وار کیا
دم رکنے لگا ہے عجب دستور سے
ظالم نے زندگی سے یوں بیزار کیا
بے سازو صدا ہے میرا نغمۂ حیات
کر کے پچھتائے ٗ واہ! کیا پیار کیا
ترکِ رواج تو بہت دیر سے کر دئیے
یہی بُرا کیا ٗ لمبا اعتبار کیا
ذکر چِھڑے ہی اسکا نام یاد آیا
بات ہوتے ہی ہم نے دیدار کیا